Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر4

بوس ایک بری خبر ہے آزان نے کہا بوس جو کسی گہرائی سوچ میں تھا آزان کی آواز پر ہوش میں ایا کیا ہو بوس نے پوچھا بوس ہمارے مال پکڑا گیا ہے آزان نے پریشانی سے کہا اس کی بات پر بوس کو غصہ ایا کس (گالی) کی انتی ہمت ہوئی ہے بوس نے پوچھا بوس یہ کام کسی پولیس والا کا نہیں ہے یہ کام آرمی والوں کا ہے آزان نے. بتایا اووو تو R D کا مقابلہ اب آرمی والوں سے ہے مزہ ائے گا بوس نے مسکراتے ہوے کہا اب کیا کرنا ہے بوس آزان نے پوچھا جو کرنا ہے اب میں کرو گا تم بس اب لڑکیوں کو دبئی میں بیجنے کی تیاری کرو بوس نے کہا اوکے بوس آزان نے کہا اور چلا گیا آزان کے جانے کے بعد بوس نے فون کیا ھلیو ہاں کراچی میں بلاسٹ کرو دو ہاں ٹھیک ھے بائے بوس نے کہا اور فون بند کیا اہم ہم اب R,D کا نقصان ہوا ہے تو کچھ نقصان اس ملک کا بھی بناتا ہے R,D نے مسکراتے ہوے کہا


نور کلاس لیے کر باہر آئ تو اچانک آنکھیں کے اگے اندھیر ایا اللہ لگتا ہے طعبیت زیادہ خراب ہو گئی ہے نور نے کہا اور بیج پر بیٹھ گئی مجھے سے تو اٹھا بھی نہیں جارہا ہے چکرا ارہے ہے اب کیا کرو اس ہی وقت شاہ نور کے پاس ایا شاہ آج بلال کو نور سے ملونے لایا تھا کیونکہ. آج سر توحید چھٹی پر تھے نور نے سر اٹھا کر شاہ کو دیکھا وہ اس وقت نور کو فرشتہ ہی لگا اس سے پہلے شاہ کچھ کہتا نور بولی مسٹر سنئیر پانی پلیز شاہ اس کی بات پر پریشان ہوا نور تم ٹھیک ہو جی میں. ٹھیک ہوں پانی پلیز نور نے اٹک اٹک کے کہا ھاں بلال پانی لینے چلا گیا اور شاہ نے پانی کی بوتل نور کو دی نور اس سے پہلے پانی پیتی آنکھیں کے سامنے اندھیر ایا اور وہ بے ہوش ہو گئی شاہ اور بلال دونوں پریشان ہوگئے نور شاہ نے اگر ہو کر نور کے چہرہ پر ھاتھ رکھا اوشٹ اس کو بہت بخار ہے شاہ نے کہا اور نور کو اٹھا کر ہپستال لے ایا


دونوں پریشان سے باہر بیٹھے تھے جب ڈاکٹر باہر آیا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے پی بی لو کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوئی ہے کچھ وقت بعد ہوش اجاگا ڈاکٹر نے کہا اور چلے گیا کچھ وقت بعد نور کو ہوش ایا تو خود کو ہپستال کے روم میں پایا اس ہی وقت شاہ روم میں ایا اووو شکر ہے تم ٹھیک ہو نور شاہ نے کہا جی ٹھیک ہو اب نور نے سنجیدر لہجہ میں کہا تمہیں بخار تھا تو یونی ائی کیوں شاہ نے پوچھا نور اس کے جواب میں چپ رہی اس ہی وقت بلال اندر ایا نور بلال کو دیکھا کر پریشان ہوئی اور شاہ کی طرف دیکھا جیس پوچھ رہی ہو یہ کون ہے شاہ اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر بولا یہ بلال ہے میرا دوست اور بھائ شاہ نے کہا اور بلال یہ نور ہے تمہاری بھابھی شاہ نے شرارت سے کہا اسلام و علیکم بھابھی بلال نے کہا نور نے پہلے شاہ کو گھورا پھر بلال کو و علیکم اسلام بلال بھائ میں آپ کی بھابھی نہیں ہو نور نے منہ بنتے ھوے کہا بلال کو وہ بہت کیوٹ لگئی اوکے بہنا طعبیت ٹھیک ہے اب آپ کی بلال نے پوچھا جی الحمداللہ ٹھیک ھے نور نے کہا میرا پرس کہاں ہے نور نے شاہ سے پوچھا تو شاہ نے اس کو پرس دی یا نور نے اپنے بابا کو فون کیا اچھا بہنا میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا بلال نے کہا اور نور کے سر پر ھاتھ رکھا یہ لمس نور کو اتنا اپنا لگا تھا بلال بھائ نور کے منہ سے بے ساختہ نکالا بلال جو جانے کے لیے مڑا تھا نور کو دیکھا کچھ وقت نور بلال کو کنفثور نظروں سے دیکھتی رہی اللہ حافظ نور سے جلدی سے کہا بلال اس کی بات پر مسکرایا اور چلا گیا اس کے جانے کے بعد نور پریشان سی بلال کے بارے میں سوچتی رہی شاہ نور کو پریشان دیکھ کر مسکراتا ہوا باہر چلا گیا بلال جو ضبظ کر رہا تھا جب نور نے کہا بلال بھائ بلال کا دل کیا کہ نور کو اپنی ڈول کو گلے سے لگ لے بلال تو ٹھیک ہے شاہ نے پوچھا شاہ میں بہت خوش ہو تم نے دیکھا اس نے مجھے رکا اس کی نظروں میں دیکھ تم نے بلال نے خوشی سے کہا ھاں یار ایک بات ہے اس کی چٹھی حسس تیز ہے شاہ نے سوچتا ہوے کہا عبداللہ صاحب ہپستال ائے نور کے پاس ائے نور میں بچا کہا بھی تھی نہیں جاو یونی عبداللہ صاحب پریشان ہوتے کہا بابا میں ٹھیک ہو بس اب تو ڈاکٹر نے بھی چھٹی دے دی ہے نور نے اپنے بابا کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھ کر پیار سے کہا میری بچا عبداللہ صاحب نے اس کی بات پر نور کو خود سے لگیا اور نور مسکرا دی جبکہ روم سے باہر شاہ اور بلال دونوں یہ سب دیکھا کر گہرائی سوچ میں چلے گئے


بلال گھر آیا تو حریم اس کا انتظارا کر رہی تھی بلال حریم کو دیکھا کر مسکرایا ماما آپ سوئی نہیں بلال نے پوچھا نہیں میں کھانا لاو آپ کے لیے حریم نے کہا جی آپ گرم کرے میں فریش ہو کر آتا ہو بلال نے کہا کچھ وقت بعد بلال کھانا کھا رہا تھا اور حریم اس کو دیکھا رہی تھی کیا ہوا ماما ایسے کیا دیکھ رہی ہے بلال نے پوچھا دیکھ رہی ہوں ابھی کل کی بات تھی جب تم ضد کرتے تھے کہ میں نے بابا کے ھاتھ سے کھانا کھانا ہے اور آج بلال میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے وقت کا پتا نہیں چلا ان کی بات پر بلال مسکرایا جی ماما یاد ہے مجھے بلال میری جان اب شادی کر لو حریم نے کہا اس کی بات پر بلال خاموش ہو گیا اور گہرا سانس لیا ماما مجھے نہیں کرنی شادی ابھی بلال نے کہا کیوں ابھی تو شاہ نے بھی کر لی ہے وہ افسوس سے بولی ماما آپ کو پتا ہے میں آج نور سے ملا ہوں بلال نے خوشی سے کہا کیا کیسی ہے میری ڈول حریم نے بیھگی لہجہ میں پوچھا ماما بہت اچھی ہے اور اتنی پیاری ہے بلال نے کہا بلال ڈول کب ائے گئی گھر حریم نے پوچھا ماما بہت جلد ہماری فمیلی مکمل ہو جائے گئی انشاءاللہ انشاءاللہ حریم نے کہا


نور میرا بچا میں نے ہمیشہ سے تمہیں ماں باپ کا انتظارا کیا ہے اور اس بات کا میرا خدا گوہ ہے لیکن تمہاری ماں اس دنیا میں نہیں رہی اب مجھے میں ہمت نہیں ہے کہ میں تمہیں بینا رھ لو آج تمہیں فون ایا میرے دل میں کچھ ہوا میں بہت ڈدر گیا تھا میری گڑیا عبداللہ صاحب نے نور کے سر پر ھاتھ رکھا کر کہا بابا ایسی باتے نہیں کرے سوری مجھے پتا نہیں تھا کہ طعبیت انتی خراب ہو جاے گئی ورنہ میں یونی نہیں جاتی اور نہ مسڑ سیئنر کی مدر لینی پڑتی نور نے عبداللہ صاحب کے سینے پر سر رکھا کر کہا نور ایسے نہیں کہتے اس بچے نے تمہاری مدر کی ہے تم اس کا شکریہ کرو گئی عبداللہ صاحب نے کہا ان کی بات پر نور نے منہ بنایا بابا میں نہیں کرو کی کوئی شکریہ وکریہ ان کا نور نے کہا اچھا ٹھیک ہے نہ کرنا میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں عبداللہ صاحب نے کہا اور چکن میں چلے گئے ایک بات وہ جانتے تھا کہ نور نے کیسی بات پر نہ کر دی تو کوئی ھاں نہیں کرو سکتا اس سے


آج نور یونی ائی تھی دو دن بعد اس نے کلاس لی اور اب وہ گھاس پر بیٹھ کر کاپی پر کچھ نوٹ کر رہی تھی اس کو اپنے اوپر کیسی کی نظروں کی تپسش محصوص ہوئی ایسا پہلی بارا نہیں ہو تھا اکثر ایسا ہی ہوتا تھا اس کی وجہ اس کا خوبصوت چہرہ تھا اس لیے اس کو اپنی خوبصوتی سے نفرت تھی ایک دو بارا اس نے نقاب کرنے کا سوچ اور کیا بھی لیکن اس کو سانس لینے میں مسلہ ہوا اور ہپستال جانے پڑا تو عبداللہ نے اس کو منع کر دیا نقاب کرنے سے بچپن سے ہی نور کو سانس کا مسلہ تھا نور اپنے کام میں مصروف رہی لیکن کوئی مسلسلہ اس کو دیکھا رہا تھا غصہ میں نور نے دیکھا تو سر توحید تھے نور نے گہرا سانس لیا اور سر کے پاس آئ اسلام و علیکم سر نور نے کہا سر کے سر ہلا کر جواب دیا سر کوئی مسلسلہ ہے آپ کو کچھ کہنا ہے نور نے پوچھا اس کی بات پر سر مسکرائے نہیں کوئی مسلسلہ نہیں ہے ٹھیک ھے سر نور نے ضبط کرتے ہوے کہا اور وہاں سے جانے لگئی تھی توحید بولا مس نور طبعیت کیسی ہے اب آپ کی میں نے سن تھا کہ آپ یونی میں بے ہوش ہو گئی تھی جی ٹھیک سن ہے آپ نے اب میں ٹھیک ہو اور آنئدہ اگر آپ نے مجھے اس طرح دیکھا تو میں یہ بھول جاو گئی کہ آپ میرے ٹیچر ہے نور نے غصہ سے کہا اور چلی گئی آہ نور تمہاری یہ ہی ادا پر ہی میں مر گیا ہو توحید نے ایک گہری نظر نور پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا


ھلیو ہاں میں نے تم سے کچھ کہا تھا اس دن RD نے کیسی کو فون پر کہا اگے سے جو خبر ملی وہ سن کر R,D نے غصہ سے فون زمیں پر دے مارا کچھ دیر بعد خود پر قابو پایا آزان R,D نے آزان کو آواز دی آزان کچھ ہی وقت میں R,D کے سامنے تھا جی باس آزان نے کہا آزان کام ہو گیا باس نے پوچھا جی باس گاڈھی تیار ہے آج رات. لڑکیوں دبئی پہیچ جائے گئی گڈ باس نے کہا باس ایک بات پوچھوں آپ سے آزان نے کہا ھاں بولو بوس آپ نے ایک لڑکی کا کہا تھا وہ نہیں جائے گئی کیا آزان نے پوچھا اس کی بات پر بوس مسکرایا اس کو نور یاد ائی. نہیں وہ چڑیل مجھے بہت پسند آئ ہے وہ میری منظور نظر ہو گئی اس کی بات پر آزان ضبظ کر گیا جی بوس میں جاو ٹھیک ھے باس نے کہا اور خود نور کے بارے میں سوچنے لگا باہر اکر( آزان یعنی بلال ) نے شاہ کو فون کیا


نور یونی سے واپس آرہی تھی کہ اچانک وین رکی کیا ہوا چچا نور نے وین والے سے پوچھا بیٹا لگتا ہے وین خراب ہو گئی ہے وین والے نے پریشان ہو کر کہا اب کیا ہو گا نور بھی پریشان ہو گئی میں کوئی راکشہ دیکھتا ہو تم اس میں بستی چلی جانا وین والے نے کہا ٹھیک ہے نور نے کہا اچانک ایک کار اکر رکی اور بلال باہر آیا نور کو وہ دیکھا چوکا تھا کیا ہوا کوئی مسلہ ہے بلال نے پوچھا نور بلال کو دیکھا کر خوش ہوئی اووو بلال بھائ آپ نور نے کہا جی میں کیا ہوا بلال اس کو خوش دیکھا کر مسکرایا نور نے ساری بات بتائی اوو چلے میں آپ کو گھر ڈاپ کر دیتا ہو بلال نے کہا بلال کی بات پر نور کنفثور ہو گئی پھر بولی نہیں بھائ میں خود چلی جاو گئی اس کو کنفثور دیکھ کر بلال بولا نور بہنا پلیز ائے میں چھوڑ دیتا ہوں کیا کچھ تھا بلال کے لہجہ میں مان عزت جو نور نے محصوص کیا اور وہ چاہ کر بھی منع. نہیں کر سکی بلال نے نور کے گھر کی گلی کے پاس گاڑھی رکی بھائ ائے نا گھر میں بابا سے آپ کو ملوتی ہو نور نے گاڑھی سے اترتے ہوے کہا نہیں مجھے کچھ کام ہے پھر کبھی بلال نے منع کیا بھائ میں کوئی نہیں نہیں سن رہی ابھی اندر چلے نور نے حکم دیتا ہوے کہا اس کے حکم دینی پر بلال مسکرایا ٹھیک ہے چلے اسلام و علیکم بابا نور نے گھر اکر عبداللہ صاحب سے کہا بچا آج انتی لیٹ میں ارشد (وین والے) کو فون کر رہا تھا اس نے نہیں اٹھا عبداللہ صاحب نے کہا جی بابا یہ بلال بھائ ہے اور پھر نور نے ساری بات بتائی اسلام و علیکم انکل بلال جو چپ اپنی ڈول کو سن رہا تھا بولا بھائ پلیز بیٹھ میں چائے لے کر اتی ہوں نور نے کہا نور چائے بننا چلی گئی اور عبداللہ صاحب اور بلال باتے کرنے لگ انکل نور کیسی پر گئی ہے میرا مطلب آپ پر یا آنٹی پر نہیں گئی بلال نے عبداللہ صاحب کی بیوی کی تصیور دیکھ کر کہا نہیں بیٹا ہم پر ابھی عبداللہ صاحب بات پوری ہی کرتے نور چائے لے کر اندر ائی نہیں بھائ میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو نور نے مزہ سے کہا اور بلال اس کو کرنٹ لگ نور کے الفاظ تھا کہ کوئی بم بلال کو لگ اب سانس نہیں آے گا نور عبداللہ صاحب نے نور کو آنکھیں دیکھائی ایسے نہیں کہتے بچے عبداللہ صاحب نے کہا اوکے بابا ہمیشہ کی طرح نور نے جواب دیا اور بلال وہ اکھڑ ہوگیا انکل مجھے کچھ کام ہے میں چلتا ہو بلال نے کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے نور آواز دیتی رہ گئی گاڑھی میں بیٹھ کر بلال نے گاڑھی چلانی شروع کر دی بلال کو کچھ بھی سنئنی نہیں دے رہا تھا بس نور کے الفاظ "میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو " "میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو "

   0
0 Comments